انجینئرعفان نعمانی
آج ہم ملک کے اس مشہور شخصیت کو یاد کرنے جا رہے ہے جسکے یوم ولادت پر پورا ملک ایجوکیشن ڈے کے طور پر مناتا ہے اور وہ شخص آزاد ہند کے پہلے وزیرِ تعلیم اور قومی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد ہے جو ١١ نوومبر١٨٨٨ میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے تھے -
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا ایسا ہے جیسے کسی سمندر کی حد بندی کرنا ۔ دانشور، دور اندیش سیاست داں، مفکر، فلسفی ، خطیب ، صحافی اور عالی مرتبہ مجتہد جیسے القاب میں بھی ان کو قید نہیں کیا جا سکتا ۔ مولانا نے صرف ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے بعد وزیر تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے ملک کو بہت کچھ دیا ۔ مولانا ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ زندگی
کے ہر شعبہ میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا کے علم اور صلاحیتوں کا فائدہ مہاتما گاندھی ، نہرو اور پٹیل نے اٹھایا لیکن مسلمانوں نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا ہی نہیں اور ان کو کانگریس کے قائد کے طور پر دیکھتے رہے۔ ابھی حال ہی مے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد جانا ہوا- مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے چانسلر فیروز بخت احمد کے ساتھ ایک پروگرام مے شرکت کی - میٹنیگ میں مغربی و ہندوستان فکرو فلسفہ، حال میں سیاسی، و معاشی سطح پر تبادلۂ خیال ہوا- پروگرام کے دوران میرے زہن مے بار بار ایک سوال اٹھ رہا تھا کی اگر آج مولانا آزاد ہوتے تو مسلمان سیاسی ، مذہبی ومعاشی سطح پر کہا ہوتے ؟
مولانا آزاد پر لکھیں کئی کتابیں پڑنے کو ملا لیکن مولانا آزاد کی لکھیں کتابیں میں انڈیا ونس فریڈم بہت اہم ہے-
اگر ہم مولانا کی زندگی پر روشنی ڈالے تو ہمے معلوم ہوتا ہے کے مولانا ابوالکلام آزاد 1888 میں دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے ۔ عربی آپ کی مادری زبان تھی 1895 میں وہ کلکتہ پہنچے ۔ یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی ۔ اللہ نے انہیں حافظہ اور ذہانت کی دولت سے فراخ دلی کے ساتھ نوازا تھا ۔ انہوں نے تیرہ چودہ برس کی عمر میں فقہ ، حدیث ، منطق اور ادبیات پر عبور حاصل کرلیا تھا ۔ اپنے والد مولانا خیر الدین کے علاوہ مولوی ابراہیم ، مولوی محمد عمر ، مولوی سعادت حسن وغیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے دس گیار برس کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا اور مولوی عبدالواحد کی تجویز پر آزاد تخلص پسند کیا ۔ بعد میں نثر نگاری کی طرف توجہ کی ۔ مولانا کا عقیدہ تھا کہ قرآن ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ مولانا کی ادبی ، سماجی ، تاریخی اور سیاسی تحریروں میں قرآن کے حوالے موجود ہیں ۔مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی اور سیاسی میدان میں گزرا ۔ آپ نے بہت سے رسالوں میں مضامین لکھے اور کئی ادبی رسالے شائع کئے ۔ مولانا نے 31 جولائی 1906 ء کو ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا پہلا شمارہ شائع کیا ۔ اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا ۔ حکومت نے الہلال پریس کو ضبط کرلیا تو مولانا نے ’’البلاغ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا۔ مولانا جیسے ایک بے باک صحافی تھے ویسے ہی مقرر بھی تھے ۔ مولانا جہاں تقسیم وطن کے سخت خلاف تھے وہیں وہ مسلمانوں پر پڑنے والے اثرات کو لے کر بھی بے چین تھے- مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہیں تھے اور وہ صرف مسلمانوں کے لئے تعمیری سوچ و فکر رکھنے والے شعلہ بیان مقرر اور بیدار جید عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہد آزادی کے لئے ایک حوصلہ مند سپہ سالار بھی تھے ۔ مولانا مذہب کے نام پر کسی بھی کام کے خلاف تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج میں یہ بات ببانگ دہل کہہ رہا ہو ں کہ جن مسلمانوں نے تقسیم کا خواب دیکھا تھا اور اسلامی جمہوریت کی بنیاد ڈالنے کی بات کی تھی ، آج ان کی بات قبول ہو گئی اور ہم گنہگاروں کی دعائیں کام میں نہ آئیں مگر میں آج یہ بات بھی دو روپے کے کاغذ پر لکھ سکتا ہوں کہ جس چیز پر بھی مذہبی جنون کا عملی جامہ پہنایا جاتا ہے وہ لمبی مدت تک کامیاب نہیں ہو پاتا۔ مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان بھی دو حصوں میں بٹ جائے گا۔ ایک جانب مذہبی جنون والے تو دوسری جانب جدید تہذیب والے ہوں گے اور ان دونوں میں جب ٹکراؤ ہوگا تو پورے پاکستان میں بے چینی پھیل جائے گی‘‘۔ مولانا کا یہ پیغام صرف پاکستان نواز لوگوں کے لئے نہیں تھا بلکہ آج بھی یہ پیغام اتنا ہی صحیح ہے جتنا اس وقت تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کی موجودہ قیادت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا ’’مولانا انڈین نیشنل کانگریس کے اعلی ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے‘‘-
ریسرچ اسکالر انجینئر عفان نعمانی شاہین ایجوکیشنل اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن سے جڑے ہوے ہے
آج ہم ملک کے اس مشہور شخصیت کو یاد کرنے جا رہے ہے جسکے یوم ولادت پر پورا ملک ایجوکیشن ڈے کے طور پر مناتا ہے اور وہ شخص آزاد ہند کے پہلے وزیرِ تعلیم اور قومی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد ہے جو ١١ نوومبر١٨٨٨ میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے تھے -
مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت کا احاطہ کرنا ایسا ہے جیسے کسی سمندر کی حد بندی کرنا ۔ دانشور، دور اندیش سیاست داں، مفکر، فلسفی ، خطیب ، صحافی اور عالی مرتبہ مجتہد جیسے القاب میں بھی ان کو قید نہیں کیا جا سکتا ۔ مولانا نے صرف ہندوستان کی آزادی میں اہم کردار ادا نہیں کیا اور نہ ہی یہ کہا جا سکتا ہے کہ آزادی کے بعد وزیر تعلیم کی حیثیت سے انہوں نے ملک کو بہت کچھ دیا ۔ مولانا ایسی شخصیت کے مالک تھے کہ زندگی
کے ہر شعبہ میں ان کی گراں قدر خدمات ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مولانا کے علم اور صلاحیتوں کا فائدہ مہاتما گاندھی ، نہرو اور پٹیل نے اٹھایا لیکن مسلمانوں نے ان کی صلاحیتوں کو پہچانا ہی نہیں اور ان کو کانگریس کے قائد کے طور پر دیکھتے رہے۔ ابھی حال ہی مے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد جانا ہوا- مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے چانسلر فیروز بخت احمد کے ساتھ ایک پروگرام مے شرکت کی - میٹنیگ میں مغربی و ہندوستان فکرو فلسفہ، حال میں سیاسی، و معاشی سطح پر تبادلۂ خیال ہوا- پروگرام کے دوران میرے زہن مے بار بار ایک سوال اٹھ رہا تھا کی اگر آج مولانا آزاد ہوتے تو مسلمان سیاسی ، مذہبی ومعاشی سطح پر کہا ہوتے ؟
مولانا آزاد پر لکھیں کئی کتابیں پڑنے کو ملا لیکن مولانا آزاد کی لکھیں کتابیں میں انڈیا ونس فریڈم بہت اہم ہے-
اگر ہم مولانا کی زندگی پر روشنی ڈالے تو ہمے معلوم ہوتا ہے کے مولانا ابوالکلام آزاد 1888 میں دنیا کے مقدس ترین مقام مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے ۔ عربی آپ کی مادری زبان تھی 1895 میں وہ کلکتہ پہنچے ۔ یہاں ان کی باقاعدہ تعلیم شروع ہوئی ۔ اللہ نے انہیں حافظہ اور ذہانت کی دولت سے فراخ دلی کے ساتھ نوازا تھا ۔ انہوں نے تیرہ چودہ برس کی عمر میں فقہ ، حدیث ، منطق اور ادبیات پر عبور حاصل کرلیا تھا ۔ اپنے والد مولانا خیر الدین کے علاوہ مولوی ابراہیم ، مولوی محمد عمر ، مولوی سعادت حسن وغیرہ سے ابتدائی تعلیم حاصل کی ۔ آپ نے دس گیار برس کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا اور مولوی عبدالواحد کی تجویز پر آزاد تخلص پسند کیا ۔ بعد میں نثر نگاری کی طرف توجہ کی ۔ مولانا کا عقیدہ تھا کہ قرآن ہماری زندگی کے ہر شعبے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ مولانا کی ادبی ، سماجی ، تاریخی اور سیاسی تحریروں میں قرآن کے حوالے موجود ہیں ۔مولانا کی زندگی کا بڑا حصہ ادبی اور سیاسی میدان میں گزرا ۔ آپ نے بہت سے رسالوں میں مضامین لکھے اور کئی ادبی رسالے شائع کئے ۔ مولانا نے 31 جولائی 1906 ء کو ہفت روزہ ’’الہلال‘‘ کا پہلا شمارہ شائع کیا ۔ اس کا اہم مقصد ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتحاد پیدا کرنا تھا ۔ حکومت نے الہلال پریس کو ضبط کرلیا تو مولانا نے ’’البلاغ‘‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا۔ مولانا جیسے ایک بے باک صحافی تھے ویسے ہی مقرر بھی تھے ۔ مولانا جہاں تقسیم وطن کے سخت خلاف تھے وہیں وہ مسلمانوں پر پڑنے والے اثرات کو لے کر بھی بے چین تھے- مولانا آزاد جنگ آزادی کے ایک ہیرو ہی نہیں تھے اور وہ صرف مسلمانوں کے لئے تعمیری سوچ و فکر رکھنے والے شعلہ بیان مقرر اور بیدار جید عالم دین ہی نہیں تھے بلکہ انگریزوں کے خلاف لڑنے والے مجاہد آزادی کے لئے ایک حوصلہ مند سپہ سالار بھی تھے ۔ مولانا مذہب کے نام پر کسی بھی کام کے خلاف تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’آج میں یہ بات ببانگ دہل کہہ رہا ہو ں کہ جن مسلمانوں نے تقسیم کا خواب دیکھا تھا اور اسلامی جمہوریت کی بنیاد ڈالنے کی بات کی تھی ، آج ان کی بات قبول ہو گئی اور ہم گنہگاروں کی دعائیں کام میں نہ آئیں مگر میں آج یہ بات بھی دو روپے کے کاغذ پر لکھ سکتا ہوں کہ جس چیز پر بھی مذہبی جنون کا عملی جامہ پہنایا جاتا ہے وہ لمبی مدت تک کامیاب نہیں ہو پاتا۔ مجھے صاف نظر آ رہا ہے کہ پاکستان بھی دو حصوں میں بٹ جائے گا۔ ایک جانب مذہبی جنون والے تو دوسری جانب جدید تہذیب والے ہوں گے اور ان دونوں میں جب ٹکراؤ ہوگا تو پورے پاکستان میں بے چینی پھیل جائے گی‘‘۔ مولانا کا یہ پیغام صرف پاکستان نواز لوگوں کے لئے نہیں تھا بلکہ آج بھی یہ پیغام اتنا ہی صحیح ہے جتنا اس وقت تھا۔ پاکستان اور ہندوستان کی موجودہ قیادت کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا کی قومی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے گاندھی جی نے کہا تھا ’’مولانا انڈین نیشنل کانگریس کے اعلی ترین سردار ہیں اور ہندوستانی سیاست کا مطالعہ کرنے والے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز نہ کرے‘‘-
ریسرچ اسکالر انجینئر عفان نعمانی شاہین ایجوکیشنل اینڈ ریسرچ فاؤنڈیشن سے جڑے ہوے ہے
Comments
Post a Comment