![]() |
مولانا عبدالحمید نعمانی |
چاہے جسمانی سفر ہو ، یا روحانی، دونوں کے لیے منزل کی سمت طے اور معلوم ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر اطمنان اور یقین کے ساتھ سفر شروع نہیں ہو سکتا ہے۔چلنا کافی نہیں ہوتا ہے بلکہ صحیح سمت منزل چلنا ضروری ہے۔ مذہب ، زندگی کے سفر کے لیے راستہ کاکام کرتا ہے۔اس کے متعلق آدمی کا سنجیدہ ہونا چاہئے، اس سلسلہ میں صحیح غلط ، محفوظ ، محرف مذہب کی بات ہو سکتی ہے، لیکن یہاں اصل مسئلہ آزادی کا ہے کہ ہر آدمی کو اپنی پسند اور اپنے منتخب مذہب پر چلنے کی آزادی ہونا چاہئے۔ اس کے بغیر ’’انتخاب ‘‘ کا مطلب نہیں رہ جاتا ہے۔ ہر آدمی کے سامنے اپنے طور پر انتخاب مذہب کا کوئی نہ کوئی سبب اور وجہ ترجیح ہوتی ہے۔ ہمارے نزدیک اسلام کو اختیار و انتخاب کا سبب اور وجہ ترجیح ہے۔ یہ حق آزادی ہم سنگھ کے سر سنچالک ڈاکٹر موہن بھاگوت کے لیے بھی تسلیم کرتے ہیں۔ یہ آزادی ملک کے تمام شہریوں کو آئین نے دے رکھی ہے۔یہ ہر کوئی جانتا ہے کہ انتخاب و اختیار کا معاملہ یکساں چیزوں کے درمیان ہوتا ہے۔
ہندومت ، یہودیت، عیسائیت ، جین مت اور بدھ ازم، سب کا شمار پہلے سے اور آج بھی دھرموں اور مذاہب میں ہوتا ہے۔لیکن سنگھ سربراہ اور دیگر ہندوتو وادی ہندوتو کے سوا دیگر مذاہب اور دھرموں کو دھرم ہی نہیں مانتے ہیں، فرقہ مانتے ہیں ، اور نہ صرف یہ بلکہ ۱۲؍ ستمبر ۲۰۱۷ء کو سنگھ سربراہ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اصل ہندو دھرم اور ہندوتو ہے، باقی سب اس سے نکلے ہیں ۔ لہٰذا اس میں واپس آجانا چاہئے، اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں، اسی کا نام گھر واپسی بھی رکھا گیا ہے، لیکن ہم جیسے مذہبیات کے طالب علم کے لیے اس طرح کے دعوے میں کوئی بنیاد اور دلیل نظر نہیں آتی ہے اور نہ ہی بہت سے سوالات کے جوابات ملتے ہیں ۔ کون کس دھرم اور مت کو مانتا ہے ۔یہ ہر آدمی کی اپنی تحقیق اور پسند پر منحصر ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ آزاد ہے ، اس سلسلہ میں ڈاکٹر موہن بھاگوت کا استثنیٰ نہیں ہے۔آئین نے امن عامہ کا لحاظ کرتے ہوئے ملک کے ہر شہری کو اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ و دعوت کی آزادی و اجازت دے رکھی ہے۔ لیکن اپنے دھرم اور مذہب کے دائرے کے باہر کے مذاہب کے متعلق سوالات آئیں گے تو ان پر غور و فکر کرتے ہوئے جوابات کی تلاش ضروری ہو جاتی ہے ۔ ہم دیگر اور اپنے لیے ،سوال و جواب اور اتفاق و عدم اتفاق کے اظہار کے حق آزادی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایک آزاد اور جمہوری ملک میں یہ اس کی صحت مندی کی علامت ہے۔اس کے پیش نظر ہمیں موہن بھاگوت اور دیگر ہندو فرقہ وادی حضرات کے دعوے سے اتفاق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی دلیل نظر آتی ہے۔مذکورہ تاریخ (۱۲؍ ستمبر ۲۰۱۷ء) کو بی جے پی اور سنگھ حامی سمجھے جانے والے ایک ٹی وی چینل پر موہن بھاگوت سنگھ کے نمائندے پروفیسرراگی کے سامنے ہم نے یہ کہا کہ ہندوتو ، ہندو اور ہندو دھرم کے سلسلے میں سنگھ کا نظریہ واضح نہیں ہے کہ وہ ہیں کیا؟ ان میں کون کون سی چیزیں (چیز) اور باتیں (بات)بنیادی ہیں کہ جن کو ماننے سے آدمی ہندو اورہندو دھرم کے دائرے میں رہتا ہے اور جن کے نہ ماننے سے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے ۔ اس سوال کے جواب سے سنگھ اور دیگر ہندوتو وادی حلقے کا پورا لٹریچر خالی ہے۔ جب آپ کسی چیز کی تعریف اور تشریح نہیں کر سکتے ہیں تو اس کو اپنانے یا ترک کرنے کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں ؟ ہمیں تو پورے معروف بنیادی دھرم گرنتھوں میں یہ بھی واضح طور سے نہیں ملا ہے کہ ’’ہندوتو سناتن دھرم ہے‘‘ کوئی سب بنیادی عقیدہ اور تحریک و نظریہ کا وجودبنیادی ماخذ و متون ہونا چاہئے ، جب ہندو کا لفظ ہی نہیں ہے تو ہندوتو کومذہب اور دھرم کو اصل دھرم اور مذہب کے طور پر عالمی برادری کے سامنے کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟ سنگھ کے سر سنچالکوں میں سے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار سے لے کر موہن بھاگوت تک کوئی واضح کر کے نہیں بتا سکے ہیں کہ ہندو دھرم ،ہندو اور ہندوتو کیا ہے ؟ اس سلسلے میں سنگھ کے لٹریچر میں بے پناہ تضادات اور کنفوژن ہیں۔ فکری و عملی تضادات بھی ہیں، جب سنگھ کے لوگ تمام ہندوستانیوں کو ہندو مانتے ہیں تو پھر گھر واپسی کا سوال کہاں پیدا ہوتاہے؟واپسی تو اس کی ہوتی ہے جو چلا جاتا ہے۔ جب سب اپنی اپنی جگہ ہیں تو واپسی کے لیے کہنے کی بات بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ سنگھ کے سرسنچالکوں کے ساتھ دیگر حضرات بھی کہتے ہیں کہ عبادات اور پوجا کے طریقوں کے اختلافات ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہیں توپھر ان کے ختم کر کے یکساں رنگ میں رنگنے اور تبدیلی مذہب اور دھرم پریورتن کو مدعا و موضوع بحث کیوں بنایا جاتا ہے۔کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندو دھرم نہیں ہے۔جب وہ دھرم ہی نہیں ہے تو اس کو ترک اور بدل کر دوسرے مذہب اور دھرم کو اختیار کرنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے؟ اس طرح کے سوالات میں سے کسی بھی سوال کا جواب پوری بحث میں سنگھ کے نمائندے نہیں دے سکے اور نہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے دیا۔ ہمارے یہ سوالات آج بھی باقی ہیں ۔ اینکر کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود پروفیسر راگی بھی کچھ صاف بات نہیں کہہ سکے۔وہ کوئی واضح بات کہہ بھی نہیں سکتے ہیں ، جب ان کے بڑے اور سربراہان ہی اپنے دعوے اور دلیل میں تال میل نہیں بٹھا سکتے ہیں تو یہ کہاں سے کہیں گے ؟ ڈاکٹر موہن بھاگوت کے حالات و افکار پر مبنی کتاب’’ قومی ہیر و، موہن بھاگوت‘‘میں صاف صاف لکھا ہے’’ ہندو کوئی دھرم نہیں ہے۔ ہندو اور ہندوتو میں ہندو بھی شامل ہے اور مسلم عیسائی اور سکھ بھی کیوں کہ یہ سب کی راشٹریہ پہچان ہے‘‘(ص ۵۹مطبوعہ دہلی ۲۰۱۷ء)ایسے سنسکرتک (تہذیبی) وراثت کو بتانابھی کوئی آسان کام نہیں ہے اور جہاں تک ہندوستانی تہذیبی وراثت کی بات ہے تو ہندوستانی مسلمان اور دیگر اس سے الگ کہاں ہیں ؟ یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ہندو کوئی دھرم نہیں ہے تو دوسری طرف اسے ہی اصل دھرم اور دیگر مذاہب کو فرقہ قرار دے کر اس میں واپسی کے لیے کہا جارہا ہے۔سنگھ سر سنچالک کو یقیناً اپنے نظریے کی طرف دعوت دینے کا حق ہے، لیکن دوسرے مذاہب اور دھرموں کو ان کی بنیادی ماخذ سے پرے جاکر بالکل مخالف تعبیر و تشریح پیش کرنے کا حق نہیں ہے۔دیگر مذاہب والے کیا کہتے ہیں ۔ ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن جہاں تک اسلام کا معاملہ ہے تو اس کی بنیادی ماخذو متون میں اسلام کو واضح طور سے دین (مذہب) کہا گیا ہے۔ اسلام اور مسلم سماج ، دین اور نظریہ اور اس کے ماننے والے الگ الگ نام اور پہچان کے ساتھ موجود ہیں ، الاسلام اور المسلم جب کہ اکثریتی سماج میں دھرم اور کمیونٹی دونوں کا نام ایک ہی ہے۔
ہندو کمیونٹی اور ہندو دھرم، اس تناظر میں اسلام کو فرقہ قراردینا قطعی بے بنیاد اور بے معنی بات ہے۔ دعوے سے پہلے ڈاکٹر موہن بھاگوت جیسے ذمہ دار آدمی کا اسلام اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ ٹی وی مذاکرے میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی مشہور و معروف کتاب Riddles in Hinduism بھی ساتھ لے کر گئے تھے۔ اس کے مقدمہ میں بابا صاحب نے صاف صاف کہا ہے کہ ہندو یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ وہ ہندو کیوں ہیں ؟ جب کہ مسلمان ، عیسائی ، پارسی یہ بتا سکتے ہیں کہ ہم مسلمان ، عیسائی ، پارسی کیوں ہیں، ان کے ساتھ یہ آسانی ہے جب کہ سوال سے ہرہندو حیران ہو جائے گا۔
یہ مقدمہ تین صفحات پر مشتمل ہے جب کہ قریب چارسو صفحات میں اور مختلف عنوانات پر حوالے کے ساتھ بحث کر کے بابا صاحب نے ثابت کیا ہے کہ ہندوتو اور اس کے حوالے سے جانا جانے والا دھرم کوئی حل نہیں بلکہ الجھن ہی الجھن ہے۔
ہرہرنکتے پر موہن بھاگوت اور دیگر سنگھ کے لوگوں کو سب سے پہلے بابا صاحب جیسے عظیم محقق کے سوالات و نکات پر توجہ دے کر صحیح جوابات فراہم کرنے چاہئیں نہ کہ اسلام جیسے مذہب کو فرقے کی فہرست میں ڈال کر بھرم پیدا کریں، کچھ دعویٰ کردینا کافی نہیں ہے بلکہ دعویٰ کے ساتھ بنیاد کی نشاندہی اور دلیل بھی پیش کرنا چاہئے، اس کے بغیر معتبریت ثابت نہیں ہو سکتی ہے۔
ہندومت ، یہودیت، عیسائیت ، جین مت اور بدھ ازم، سب کا شمار پہلے سے اور آج بھی دھرموں اور مذاہب میں ہوتا ہے۔لیکن سنگھ سربراہ اور دیگر ہندوتو وادی ہندوتو کے سوا دیگر مذاہب اور دھرموں کو دھرم ہی نہیں مانتے ہیں، فرقہ مانتے ہیں ، اور نہ صرف یہ بلکہ ۱۲؍ ستمبر ۲۰۱۷ء کو سنگھ سربراہ یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اصل ہندو دھرم اور ہندوتو ہے، باقی سب اس سے نکلے ہیں ۔ لہٰذا اس میں واپس آجانا چاہئے، اس کے دروازے سب کے لیے کھلے ہوئے ہیں، اسی کا نام گھر واپسی بھی رکھا گیا ہے، لیکن ہم جیسے مذہبیات کے طالب علم کے لیے اس طرح کے دعوے میں کوئی بنیاد اور دلیل نظر نہیں آتی ہے اور نہ ہی بہت سے سوالات کے جوابات ملتے ہیں ۔ کون کس دھرم اور مت کو مانتا ہے ۔یہ ہر آدمی کی اپنی تحقیق اور پسند پر منحصر ہوتا ہے اور اس کے لیے وہ آزاد ہے ، اس سلسلہ میں ڈاکٹر موہن بھاگوت کا استثنیٰ نہیں ہے۔آئین نے امن عامہ کا لحاظ کرتے ہوئے ملک کے ہر شہری کو اپنے مذہب پر چلنے اور اس کی تبلیغ و دعوت کی آزادی و اجازت دے رکھی ہے۔ لیکن اپنے دھرم اور مذہب کے دائرے کے باہر کے مذاہب کے متعلق سوالات آئیں گے تو ان پر غور و فکر کرتے ہوئے جوابات کی تلاش ضروری ہو جاتی ہے ۔ ہم دیگر اور اپنے لیے ،سوال و جواب اور اتفاق و عدم اتفاق کے اظہار کے حق آزادی کو تسلیم کرتے ہیں۔ ایک آزاد اور جمہوری ملک میں یہ اس کی صحت مندی کی علامت ہے۔اس کے پیش نظر ہمیں موہن بھاگوت اور دیگر ہندو فرقہ وادی حضرات کے دعوے سے اتفاق نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی دلیل نظر آتی ہے۔مذکورہ تاریخ (۱۲؍ ستمبر ۲۰۱۷ء) کو بی جے پی اور سنگھ حامی سمجھے جانے والے ایک ٹی وی چینل پر موہن بھاگوت سنگھ کے نمائندے پروفیسرراگی کے سامنے ہم نے یہ کہا کہ ہندوتو ، ہندو اور ہندو دھرم کے سلسلے میں سنگھ کا نظریہ واضح نہیں ہے کہ وہ ہیں کیا؟ ان میں کون کون سی چیزیں (چیز) اور باتیں (بات)بنیادی ہیں کہ جن کو ماننے سے آدمی ہندو اورہندو دھرم کے دائرے میں رہتا ہے اور جن کے نہ ماننے سے دائرے سے باہر ہو جاتا ہے ۔ اس سوال کے جواب سے سنگھ اور دیگر ہندوتو وادی حلقے کا پورا لٹریچر خالی ہے۔ جب آپ کسی چیز کی تعریف اور تشریح نہیں کر سکتے ہیں تو اس کو اپنانے یا ترک کرنے کی دعوت کیسے دے سکتے ہیں ؟ ہمیں تو پورے معروف بنیادی دھرم گرنتھوں میں یہ بھی واضح طور سے نہیں ملا ہے کہ ’’ہندوتو سناتن دھرم ہے‘‘ کوئی سب بنیادی عقیدہ اور تحریک و نظریہ کا وجودبنیادی ماخذ و متون ہونا چاہئے ، جب ہندو کا لفظ ہی نہیں ہے تو ہندوتو کومذہب اور دھرم کو اصل دھرم اور مذہب کے طور پر عالمی برادری کے سامنے کیسے پیش کیا جاسکتا ہے؟ سنگھ کے سر سنچالکوں میں سے بانی ڈاکٹر ہیڈ گیوار سے لے کر موہن بھاگوت تک کوئی واضح کر کے نہیں بتا سکے ہیں کہ ہندو دھرم ،ہندو اور ہندوتو کیا ہے ؟ اس سلسلے میں سنگھ کے لٹریچر میں بے پناہ تضادات اور کنفوژن ہیں۔ فکری و عملی تضادات بھی ہیں، جب سنگھ کے لوگ تمام ہندوستانیوں کو ہندو مانتے ہیں تو پھر گھر واپسی کا سوال کہاں پیدا ہوتاہے؟واپسی تو اس کی ہوتی ہے جو چلا جاتا ہے۔ جب سب اپنی اپنی جگہ ہیں تو واپسی کے لیے کہنے کی بات بالکل بے معنی ہو جاتی ہے۔ سنگھ کے سرسنچالکوں کے ساتھ دیگر حضرات بھی کہتے ہیں کہ عبادات اور پوجا کے طریقوں کے اختلافات ہمارے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہیں توپھر ان کے ختم کر کے یکساں رنگ میں رنگنے اور تبدیلی مذہب اور دھرم پریورتن کو مدعا و موضوع بحث کیوں بنایا جاتا ہے۔کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ہندو دھرم نہیں ہے۔جب وہ دھرم ہی نہیں ہے تو اس کو ترک اور بدل کر دوسرے مذہب اور دھرم کو اختیار کرنے کا سوال کہاں پیدا ہوتا ہے؟ اس طرح کے سوالات میں سے کسی بھی سوال کا جواب پوری بحث میں سنگھ کے نمائندے نہیں دے سکے اور نہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے دیا۔ ہمارے یہ سوالات آج بھی باقی ہیں ۔ اینکر کے بار بار توجہ دلانے کے باوجود پروفیسر راگی بھی کچھ صاف بات نہیں کہہ سکے۔وہ کوئی واضح بات کہہ بھی نہیں سکتے ہیں ، جب ان کے بڑے اور سربراہان ہی اپنے دعوے اور دلیل میں تال میل نہیں بٹھا سکتے ہیں تو یہ کہاں سے کہیں گے ؟ ڈاکٹر موہن بھاگوت کے حالات و افکار پر مبنی کتاب’’ قومی ہیر و، موہن بھاگوت‘‘میں صاف صاف لکھا ہے’’ ہندو کوئی دھرم نہیں ہے۔ ہندو اور ہندوتو میں ہندو بھی شامل ہے اور مسلم عیسائی اور سکھ بھی کیوں کہ یہ سب کی راشٹریہ پہچان ہے‘‘(ص ۵۹مطبوعہ دہلی ۲۰۱۷ء)ایسے سنسکرتک (تہذیبی) وراثت کو بتانابھی کوئی آسان کام نہیں ہے اور جہاں تک ہندوستانی تہذیبی وراثت کی بات ہے تو ہندوستانی مسلمان اور دیگر اس سے الگ کہاں ہیں ؟ یہ کتنا بڑا تضاد ہے کہ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ ہندو کوئی دھرم نہیں ہے تو دوسری طرف اسے ہی اصل دھرم اور دیگر مذاہب کو فرقہ قرار دے کر اس میں واپسی کے لیے کہا جارہا ہے۔سنگھ سر سنچالک کو یقیناً اپنے نظریے کی طرف دعوت دینے کا حق ہے، لیکن دوسرے مذاہب اور دھرموں کو ان کی بنیادی ماخذ سے پرے جاکر بالکل مخالف تعبیر و تشریح پیش کرنے کا حق نہیں ہے۔دیگر مذاہب والے کیا کہتے ہیں ۔ ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے ہیں۔ لیکن جہاں تک اسلام کا معاملہ ہے تو اس کی بنیادی ماخذو متون میں اسلام کو واضح طور سے دین (مذہب) کہا گیا ہے۔ اسلام اور مسلم سماج ، دین اور نظریہ اور اس کے ماننے والے الگ الگ نام اور پہچان کے ساتھ موجود ہیں ، الاسلام اور المسلم جب کہ اکثریتی سماج میں دھرم اور کمیونٹی دونوں کا نام ایک ہی ہے۔
ہندو کمیونٹی اور ہندو دھرم، اس تناظر میں اسلام کو فرقہ قراردینا قطعی بے بنیاد اور بے معنی بات ہے۔ دعوے سے پہلے ڈاکٹر موہن بھاگوت جیسے ذمہ دار آدمی کا اسلام اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ ٹی وی مذاکرے میں بابا صاحب بھیم راؤ امبیڈکر کی مشہور و معروف کتاب Riddles in Hinduism بھی ساتھ لے کر گئے تھے۔ اس کے مقدمہ میں بابا صاحب نے صاف صاف کہا ہے کہ ہندو یہ نہیں بتا سکتے ہیں کہ وہ ہندو کیوں ہیں ؟ جب کہ مسلمان ، عیسائی ، پارسی یہ بتا سکتے ہیں کہ ہم مسلمان ، عیسائی ، پارسی کیوں ہیں، ان کے ساتھ یہ آسانی ہے جب کہ سوال سے ہرہندو حیران ہو جائے گا۔
یہ مقدمہ تین صفحات پر مشتمل ہے جب کہ قریب چارسو صفحات میں اور مختلف عنوانات پر حوالے کے ساتھ بحث کر کے بابا صاحب نے ثابت کیا ہے کہ ہندوتو اور اس کے حوالے سے جانا جانے والا دھرم کوئی حل نہیں بلکہ الجھن ہی الجھن ہے۔
ہرہرنکتے پر موہن بھاگوت اور دیگر سنگھ کے لوگوں کو سب سے پہلے بابا صاحب جیسے عظیم محقق کے سوالات و نکات پر توجہ دے کر صحیح جوابات فراہم کرنے چاہئیں نہ کہ اسلام جیسے مذہب کو فرقے کی فہرست میں ڈال کر بھرم پیدا کریں، کچھ دعویٰ کردینا کافی نہیں ہے بلکہ دعویٰ کے ساتھ بنیاد کی نشاندہی اور دلیل بھی پیش کرنا چاہئے، اس کے بغیر معتبریت ثابت نہیں ہو سکتی ہے۔
مولانا عبدالحمید نعمانی
معروف عالم دین اور ہندوستانی فلسفہ کے ماہر نیز دارالعلوم دیوبند کے استاذرہے
Comments
Post a Comment