![]() |
انجینئر عفان نعمانی |
آج ہندوستان، پاکستان بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور
چار سے پانچ سو سال پہلے سائنسی علوم کے تعلق سے علم ریاضی، علم نباتات، علم طبعیات، علم کیمیا اور میڈیکل سائنس میں مسل سائنسدانوں کا دبدبہ تها لیکن آج سائنس کے شعبہ میں ان کا کوئی نام و نشان نہیں ہے۔
مختلف اسلامی ملکوں کی بدحالی کی وجہ یہ ہے کہ ان کی سائنسی علوم سے کوئی وابستگی نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ترقی یافتہ قوم بننے کے لیے سائنسی علوم سے وابستہ ہونا ناگزیر ہے ، میں نے سائنس سے متعلق بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا تو پایا کہ سائنس وہ علم ہے جو قومی، مذہبی، نسلی اور علاقائی عصبیت سے پاک ہے۔
علم ریاضی عرب دنیا کا پسندیدہ موضوع رہا
محمد بن موسی خوارزمی جسے یوروپی دنیا الگورزم کے نام سے جانتی ہے، آپ نے ریاضی (حساب) فلکیات (آسمانی چیزوں سے
متعلق علم)، جغرافیہ اور تاریخ میں غیرمعمولی کارنامے انجام دیے۔ الجبروالمقابلہ خوارزمی کی مشہور علم ریاضی کتاب میں سے ایک تهی، بارہویں صدی میں جس کا ترجمہ کیا گیا اور سولہویں صدی تک یوروپ کے یونیورسٹی کورس میں شامل کر لیا گیا۔
جابر بن حیان جن کو یوروپ میں گیبر کے نام سے جانا جاتا ہے، آپ امام جحفر صادق رحمۃ اللہ کے شاگرد بهی تهے۔ کیمیا میں آپ کی خدمت قابل قدر ہیں۔ علم کیمیا کے متعلق آپ نے ۲۲ کتابیں لکهی جو آج بهی عربی زبان میں موجود ہیں اور بعد میں انگریزی اور لاطینی زبان میں اس کے ترجمے ہوئے.
ابوعلی محمد ابن حیثم جنہیں یوروپ میں الحیزن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ الحیزن پہلے سائنسداں تهے جنہوں نے یونانیوں کے نذریہ خو کو غلط ثابت کرتے ہوئے بتایا کہ روشنی کی کرنیں آنکهوں سے اشیاء بلکہ اشیاء سے آنکهوں کی طرف آتی ہیں۔
الحیزن دنیا کے پہلے ماہر سائنسداں تهے جنہوں نے خوردبین کی ایجاد کا راستہ ہموارکیا اور ساتھ ہی روشنی کی عکاسی کے اہم اصول پیش کیے۔
ابوعلی حسین ابن عبداللہ سینا جنہیں ایوی یوروپ دنیا ایوی سینا کے نام سے جانتی ہے، آپ تهرمامیٹر کے موجد ہیں۔ آپ نے علم ریاضی، فلسفہ، میڈیکل سائنس، سیاست اور قانون سے متعلق کتابیں لکهیں۔
اس طرح اسلام کے سنہرے دور میں کئی سائنسداں ابوموسی علی ابن طبری، ابوالعباس احمد فرغانی، ابوبکرمحمد ابن یحیی، ابن بجہ، ابوبکر محمد عبدالمالک، ابن طفیل، ابو ولید محمد ابن عباس مجوسی اور حنین اب اسحاق جیسے عظیم سائنسداں تهے جنہوں نے دنیا کو ہی بدل کررکھ دیا۔ افسوسناکبات
ہے کہ دنیا م مسلم سائنس دانوں کا تناسب دهیرے دهیرے گهٹتا جارہاہے جس کی اہم وجہ یہ رہی کہ سائنس دانوں نے افراط وتفریط سے کام لیا جس سے عقیدوں میں بگاڑ پیدا ہونے لگا تو اس وقت کے علماء کرام نے اس علم کے حصول پر فتوی لگا دیا، جس سے بہت سوں کا حوصلہ بهی پست ہوگیا اور اب تک مسلمان سائنس سے کترارہے ہیں۔ کچه لوگ اب بهی اسی قدیم روایت پر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم سے ہمیں ان علوم کے حصول کا اشارہ ملتا ہے، مثلاً قرآن کریم میں کائنات کی پیدائش، چاند شق ہوجائے گا، سورج کی زوال آمادگی – وسیع ہوتی کائنات – ایٹم کا قابل تسخیر ہونا – پانی کی بدلتی ہییت (واٹر سائیکل)- بھاپ کی شکل اور پھر بادل میں تبدیل ہونا – علم ارضیات- جنینی مراحل وغیرہ – اگر مسلم دنیا اپنے ماضی کے ان گم گشتہ خزانوں کو کھوج لائے اور اپنے اکابرین کے کارنامے اوردنیا پہ انکے احسانات کا عتراف کرے اور انکے چھوڑے ہوئے کام کو آگے بڑھائے تو دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام پا سکتی ہے – مجھے خاص کر ہندوستانی مسلمانوں سے امید ہے۔ میزائل مین اے. پی. جے عبدالکلام، عالمی شھرت یافتہ ماہر طیوریات سلیم علی، کارڈنل جیومیٹری کے بانی ڈاکٹر سید ظہور قاسم، دکن میڈیکل کالج حیدرآباد کے ڈین حبیب اللہ اور سائنس داں اور شاعر ڈاکٹر گوہر رضا جیسے اور سائنس دان پیدا کرے تاکہ سائنس کے میدان میں مسلمانوں کا دبدبہ دوبارہ قایم ہو۔
Comments
Post a Comment