![]() |
مولانا عبدالحمید نعمانی |
ملک سے محبت ایک فطری بات ہے ، لیکن اس کے اظہار کے طریقے مختلف ہوسکتے ہیں۔ایک ماں کے پانچ بیٹے اس سے اپنی محبت کا اظہار الگ الگ طریقے سے کرتے ہیں، کوئی کپڑا لے آتا ہے ، کوئی آم ، کوئی کیلا، کوئی مٹھائی اس سلسلے میں کوئی ایک زبردستی کرے کہ تم ماں سے میرے طریقے پر اظہار محبت کروتو یہ غلط ہے۔ وندے ماترم کے تناظر میں بھی اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ نظامِ قدرت میں بڑی پراسراریت ہے، کہا جاتا ہے کہ اس خاکِ گیتی پر جو کچھ رونما ہوتا ہے اس کا فیصلہ پہلے عالم بالا میں ہوجاتا ہے، اس کے تحت بارہا شر سے خیر نکل آتا ہے۔جو لوگ وندے ماترم کہتے ہیں ہمیں ان پراعتراض نہیں ہے لیکن وہ اپنے نظریے کا زبردستی کسی کو ایک آزاد ملک میں پابند نہیں کرسکتے ۔ وندے ماترم کہنے پر راشٹر واد کی واحد بنیاد نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں بھی کچھ لوگوں نے مدھیہ پردیش کی ایک عدالت میں آئین و ایوان کی توہین اور فرقہ پرستی کے نام سے معاملہ درج کرایا تو کچھ نے یوپی ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ میں مفادِ عامہ کے تحت رِٹ داخل کرتے ہوئے اس میں یہ کہا کہ بی ایس پی کے ایم پی شفیق الرحمن برق نے پارلیمنٹ کے آخری دن جب اس میں وندے ماترم کا گیت ہورہا تھا تو گیت کا بائیکاٹ کیا، جس سے قومی گیت وندے ماترم کی توہین ہوئی، ملک سے غداری ہوئی اور فرقہ پرستی کا اظہار ہوا، بی جے پی کے مختار عباس نقوی نے بھی رامپور کے ایک جلسے میں جہاں یہ کہا تھا کہ برق نے وندے ماترم کی توہین کرکے ملک میں رہنے کا حق کھو دیا ہے، وہیں یہ بھی کہا کہ برق کے خلاف ملک سے غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے، اسی کے تحت مدھیہ پردیش کی اندور بھاجپا یونٹ کی طرف سے مقامی مجسٹریٹ کے روبرو عرضی دائر کرکے برق کے خلاف قومی وقار کی توہین مخالف ایکٹ ۱۹۷۱ء کے ساتھ ملک سے غداری، مختلف فرقوں میں دشمنی بڑھانے اور ایک طبقے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے الزام میں مقدمہ چلانے کی اپیل کی گئی تھی۔ ایسی صورت میں یوپی ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اس سلسلے کے متعلقہ مذکورہ رِٹ کو مسترد کرکے بی جے پی اور ان تمام عناصر کے رخسار پر زوردار طمانچہ لگانے کا کام کیا تھا جو وندے ماترم کے معاملے کو ایک خاص انداز سے پیش کرکے فرقہ پرستی پھیلانے کے لیے اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے تھے ۔ چیف جسٹس ایس کے سنگھ اور جسٹس وی کے اروڑا کی دو رکنی بنچ نے شوربھ شرما کی مفادِ عامہ کی رِٹ کو مسترد کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ معاملہ مفادِ عامہ کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔ یہ برق کا ذاتی معاملہ ہے، اس سلسلے میں مرکزی سرکار کی جانب سے جو جوابی موقف پیش کیا گیا تھا، اس میں کہا تھا کہ قانون میں قومی ترانہ جن گن من ہے، لیکن قومی گیت وندے ماترم کے بارے میں نہ کہیں لکھا گیا ہے نہ ہی اس گیت کو گانے کے لیے کوئی زبردستی کی جاسکتی ہے۔ عدالت نے مرکز کی اس دلیل کو تسلیم کرکے مختار عباس نقوی جیسے لوگوں کو آئینہ دِکھانے کا کام کیا تھا۔لیکن ابھی انہوں نے گزشتہ دنوں اپنے بیان میں وندے ماترم کے تعلق سے جس خیال کا اظہار کیا ہے وہ بہت حد تک معتدل ہے۔ ۱۹۸۶ء میں سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا تھا کہ راشٹرگان تک کو کسی کو اس کے مذہبی عقیدے کے خلاف گانے پر مجبور نہیں کیا جاسکتا ہے، یہ فیصلہ جسٹس ایم ایم دت اور جسٹس روچیتا ریڈی کی طرف سے ایک طالب علم کے حق میں کیرالہ ہائی کورٹ کے مخالف فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کے فیصلوں کا علم بی جے پی اور اس کے لیڈروں کو ہوگا، اس کے باوجود وندے ماترم گیت سے ملک کی وفاداری اور غداری کو جوڑنا کس قدر غیرمعقول بات ہے۔ حیرت ہے کہ اس میں سیکولر کہے اور سمجھے جانے والے حضرات بھی شامل ہوجاتے ہیں۔ کلدیپ کمار اور اصغر وجاہت (جامعہ ملیہ اسلامیہ) جیسے لوگ فرقہ پرستوں کے زمرے میں یقینا نہیں آتے ہیں، وہ فرقہ پرستی کے خلاف رہے ہیں، لیکن یہ سمجھنا صحیح نہیں ہوگا کہ چوبیس گھنٹے آدمی ایک ہی حالت اور معقول پسند رہتا ہے، بارہا گیانیوں کو بھی ریوڑی کے چکر میں چوکتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ وندے ماترم کا معاملہ ایسا ہے کہ اس میں مغالطہ کھانے اور مغالطے دینے کا ایک سلسلہ تاہنوز جاری ہے۔
راقم سطور نے تین دہائی سے کچھ پہلے ہی آنند مٹھ اور اس میں شامل وندے ماترم گیت دونوں کو پڑھا تھا، ناناجان ہندی بنگلہ دونوں زبان کے اچھے جان کار تھے، ان کے پاس دو زبان کے ایڈیشن تھے، ناول جب پہلی بار پڑھا تھا اس میں فرقہ پرستی کو صاف طور پر رقص کرتے ہوئے دیکھا تھا، اور اسے جب بھی بعد میں موقع بہ موقع پڑھا یہ محسوس ہوا کہ اس کے ذریعے سے ملک کو ایک مخصوص رنگ کی فرقہ پرستی اور شدت و نفرت پسندی کے ڈگر پر لے جانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وندے ماترم میں اکثریت کے تصورِ بندگی کے مطابق وطن کو دُرگا کی شکل دے کر اس کی حمدوثنا (وندنا) کی گئی ہے۔ صرف تعریف کرنے یا سلام کرنے کا معاملہ نہیں ہے جیسا کہ کچھ لوگ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ ہندی، سنسکرت میں کوئی حوالہ نہیں دکھلا سکتے ہیں کہ عبادت، بندگی اور پوجا کے معنی و جذبے سے خالی وندنا کے لفظ کا استعمال کیا گیا ہو، بنکم چند چٹرجی کے سامنے پورا ملک ہندستان نہیں تھا، وہ بنگالی قومیت پرستی کے تحت صرف بنگال اور وہاں کے مسلم حکمراں اور نوابوں کو دیکھ رہے تھے، اور انھیں ہر قیمت پر ختم کرنا چاہتے تھے، اس کے لیے انھیں انگریزوں سے نجات دہندہ اور دوست کے طور سے رشتہ بنانے سے بھی پرہیز و گریز نہیں تھا۔ ناول کے کردار ،مسلم آبادیوں پر حملہ کرتے اور ان کے گھروں کو نذرِ آتش کرتے نظر آتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ فرقہ پرستی کے ذہن کے ساتھ لکھے وندے ماترم گیت ہی سے مسلمانوں کو جوڑنے پر اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے، ان کو وطن دوستی اور مادرِ وطن کو احترام و سلام پیش کرنے سے پرہیز کب ہے؟ مسلمانوں نے ہمیشہ وطن سے دوستی اور وفاداری کا ثبوت فراہم کیا ہے، ہم ’’ماں تجھے سلام‘‘ کہنے کے لیے تیار ہیں، اور کہتے بھی ہیں، تو خاص طرح کی وندنا کرنے پر زور کیوں دیا جاتا ہے؟ اگر سلام اور وندنا میں کوئی فرق نہیں ہے تو ایک پر اصرار کیوں ہے؟ جو لوگ دونوں میں فرق کیے بغیر وندے ماترم گیت سب کے لیے گانے کی وکالت کرتے ہوئے توحید پرست مسلمانوں کو گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ یا تو محض سلام اور وندنا کے فرق اور معنی کو نہیں جانتے ہیں، یا مغالطہ دینا چاہتے ہیں۔ وہ وندنا کے معانی اور ان کے محل استعمال سے واقف نہیں ہوں گے، البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ اسلامی عقیدۂ تصور توحید و بندگی کا شعور و علم اس طرح نہیں رکھتے ہیں، جیسا کہ رکھنا چاہیے۔ ایک مسلمان کو ہندستانی شہری ہونے کے ناتے آئین ہند نے اسے اپنے عقیدہ پر چلنے کی نہ صرف آزادی دی ہے، بلکہ پرامن طور پر اس کی تبلیغ کا بھی حق دیا ہے، اس کے مدنظر کسی ایک فرقے کے ،چاہے وہ اکثریت میں ہی کیوں نہ ہو، عقیدے اور تصورِ عبادت و احترام پر مبنی روایت و مراسم کا دیگر مذاہب والوں کو ان کے عقیدہ کے خلاف پابند بنانے کا کوئی حق نہیں ہے اور وندے ماترم بلاشبہ ہندو اکثریت کے تصورِ عبادت و پرستش پر مبنی گیت ہے، وطن دوستی اور وطن پرستی دونوں ایک نہیں ہیں۔ اسلامی شریعت اور مسلم عقیدۂ تصور میں احترام، اطاعت اور محبت اور عبادت و بندگی میں واضح فرق ہے جب کہ ہندو اکثریت کے سماج میں اس تناظر میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے، اس میں جو اطاعت و احترام ہے، وہی پوجا اور عبادت ہے اور جو پوجا، بندگی ہے وہی انتہائی احترام و اطاعت ہے، اس لیے اسے سلام اور وندنا میں فرق نظر نہیں آتا ہے، جب کہ مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر میں دونوں میں بنیادی اور واضح فرق ہے، اگر کچھ مسلمان، بزرگوں کے مزاروں پر پھول یا چادر چڑھاتے ہیں تو اسے عبادت و بندگی کے زمرے میں نہیں رکھا جاسکتا ہے، جیسا کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں، جو لوگ مزاروں پر پھول چڑھاتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے صاحبِ مزار سے احترام و عقیدت کے اظہار ہوتا، نہ کہ اظہارِ بندگی و عبادت، اس سلسلے میں مسلمانوں میں بدعت ہونے نہ ہونے کا اختلاف تو ہے، اس میں عبادت اور بندگی نہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں نعت پیش کرتے ہیں، حمد نہیں، حالاںکہ دونوں میں تعریف کا مفہوم پایا جاتا ہے، لیکن نعت، عبادت و بندگی نہیں ہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اظہارِ عقیدت و محبت سے عبارت ہے۔ جب کہ حمد عبادت ہے، غیرخدا کی حمد نہیں کی جاسکتی ہے، وندنا میں بھی حمد والا، عبادت کا مفہوم پایا جاتا ہے، حمد اور نعت کی اصطلاح و مصداق میں بہت فرق ہے، اس حوالے سے وندے ماترم گیت سے مسلمانوں کو وابستہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے،اس لیے کچھ دنوں پہلے جناب کلدیپ کمار (روزنامہ جن ستا، ۱۹؍مئی ۲۰۱۳ء) کا یہ سوال اُٹھانا بالکل غیرمتعلق اور مغالطہ انگیز ہے کہ حضرت محمدؐ کی شان میں جو نعت گائی جاتی ہے اس میں اور کسی بھجن میں کیا فرق ہے بھلا؟ یہ بھول نہیں کرنا چاہیے کہ برصغیر ہندستان کا اسلام، عرب کا اسلام نہیں ہے۔‘‘
پہلی بات تو یہ ہے کہ نعت گائی نہیں جاتی، پڑھی یا پیش کی جاتی ہے، دوسری بات یہ ہے کہ تصورِ عبادت کے سلسلے میں سب جگہ کا اسلام ایک ہی ہے۔
مذکورہ باتوں سے اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وندے ماترم اور اس کے متعلقات میں کس قدر غلط فہمیاں اور مغالطے ہیں، اس کے کئی پہلو ہیں، جن پر کھلی بحث و گفتگو کی ضرورت ہے، تاکہ بات پوری طرح واضح ہوجائے اور صحیح صورت میں سامنے آئے، فیشن کے طور پر کچھ لوگوںکی طرح صرف یہ کہہ دینے سے بات نہیں بنے گی کہ مسلمانوںکو مختلف مذاہب والے سماج میں رہنے کا سلیقہ سیکھنا ہوگا، مسلمان بہت پہلے سے ایسے سماج میں رہنے کا سلیقہ سیکھ چکے ہیں، صرف ضرورت اس کی ہے کہ دیگر مذاہب والے بھی اسلام اور مسلمانوں کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ آخر وہ وندے ماترم گیت سے خود کو الگ کیوں رکھنا چاہتے ہیں؟
Comments
Post a Comment